اجودھیا معاملے میں سپریم کورٹ میں بدھ کے روز بھی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران ایک ہندو تنظیم نے بدھ کو سپریم کورٹ میں دعویٰ کیا کہ مغل بادشاہ بابرنہ تو اجودھیا گیا تھا اورنہ ہی متنازعہ رام جنم بھومی – بابری مسجد مقام پرمسجد تعمیرکرنےکے لئےمندرکومنہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایک مسلم فریق کے ذریعہ دائرمقدمےمیں مدعا علیہ اکھل بھارتیہ شری رام جنم بھومی بحالی کمیٹی نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے بابرنامہ، ہمایوں نامہ، اکبرنامہ اور تزک جہانگیری جیسی تاریخی کتابوں کا ذکرکیا۔ تنظیم نے کہا کہ ان میں سے کسی میں بھی بابری مسجد کے وجود کا ذکرنہیں کیا گیا ہے۔ ہندو تنظیم کی طرف سے پیش وکیل پی این مشرا نے دہائیوں قدیم معاملے میں ہو رہی سماعت میں 14 ویں دن کہا ‘ان کتابوں، خاص طور پر بابرنامہ میں پہلے مغل بادشاہ کے سونی پت میرباقی کے ذریعہ اجودھیا میں بابری مسجد کی تعمیریا مندر گرائے جانے کا کوئی ذکرنہیں ہے’۔
ہندو تنظیم کی طرف سے پیش سینئروکیل پی این مشرا نے آئینی بینچ سے کہا ‘بابراجودھیا نہیں گیا تھا اوراس لئے اس کے پاس 1528 میں مندرکے انہدام اورمسجد کی تعمیرکا حکم دینے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، میر باقی نام کا کوئی شخص اس کا کمانڈرنہیں تھا’۔ قابل ذکر ہے کہ بینچ میں جسٹس ایس ایس بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اورجسٹس ایس عبدالنظیربھی شامل ہیں۔
سینئر وکیل پی این مشرا نے آئینی بینچ سےکہا کہ میر باقی اجودھیا پرحملے کی قیادت کرنے والا کمانڈر نہیں تھا۔ اس پربینچ نے ان سے سوال کیا کہ وہ ان تاریخی کتابوں کا ذکرکے کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مشرا نے کہا کہ جہاں تک ملسمانوں سے متعلق سوال ہے، بابر نامہ پہلی تاریخی کتاب ہے اور ‘مدعا علیہ ہونے کے ناطے میں ان کے معاملات کو خارج کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا ‘اگرکسی عمارت کو مسجد اعلان کیا جانا ہے تو انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ بابروہاں سے واقف تھا’۔
مشرا نے کہا کہ بابرنامہ بادشاہ کی زندگی کے 18 سالوں سے متعلق ہے، لیکن اس میں اجودھیا میں کسی مسجد کے بارے میں ذکرنہیں ہے۔ اس کے علاوہ جب مبینہ مسجد کی تعمیرکرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس وقت بادشاہ راجا آگرہ میں تھا۔ مشرا نے کہا ‘کوئی شخص جھوٹ بول سکتا ہے، لیکن حالات جھوٹ نہیں بولتے’۔