راجستھان کی گہلوت سرکار نے پہلوخان موب لنچنگ معاملے کی ازسرِنو تفتیش کا حکم اور ضلعی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا کیا کہ ان دیش بھکتوں کے پیٹ میں زوروں کا مروڑ اٹھنے لگ گیا جو سوشل میڈیا پر دن رات ایک عدد پاکستان کو فتح اور ہر ہفتے مہاشے جی کو کسی نہ کسی دیوتا کا اوتار قرار دیتے نہیں تھکتے۔ انہیں غم اس بات کا ہے کہ گہلوت حکومت پہلوخان کے قاتلوں کو سزا دلانے کا اعادہ کیوں کر رہی ہے جس سے ان کے موب لنچنگ کا وہ کاروبار متاثر ہوسکتا ہے جو کہیں گئورکشا و لوجہاد کے نام پر تو کہیں جے شری رام کے نام پر چل رہا ہے اور بدقسمتی سے جس کے زیادہ شکار مسلمان ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ خود ساختہ دیش بھکت سوشل میڈیا سے لے کر ہندو میڈیا معاف کیجئے گا ہندی میڈیا تک پر اشوک گہلوت سرکار کو دیش ورودھی، ہندو ورودھی، گئوورودھی، دھرم وردودھی اور معلوم نہیں کیا کیا ورودھی ثابت کرنے پر اپنے پوری طاقت لگائے ہوئے ہیں اور جو بھی ان ملزمین کے بری ہونے پر بے اطمینانی ظاہر کر رہا ہے اس کے خلاف مقدمات درج کروا رہے ہیں۔
الور ضلع کی عدالت نے اپنے فیصلے میں جن بنیادوں پر ملزمین کو رہا کیا ہے، اس میں صاف طور سے یہ بات کہی گئی ہے کہ پولس کی جانب سے نہ تو پروفیشنل طریقے سے اس کیس کی تفتیش ہوئی اور نہ ہی تفتیش کے بعد جمع کیے گئے ثبوتوں کو تکنیکی معیار کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس عارفانہ تجاہل کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ ملزمین کے خلاف مقدمات کمزور ہوجائیں اور وہ رہا ہوجائیں، سو ہوا بھی وہی۔ اس سے بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ دسمبر 2017 سے دسمبر 2018 تک اس معاملے کی جو تفتیش ہوئی تھی وہ بی جے پی کی وسندھرا راجے سرکار کی پولس نے کی تھی، جن کے دور میں سمبھولال ریگر جیسے قاتلوں کی حمایت میں نہ صرف ریلیاں نکلیں بلکہ اس کی رہائی کے لئے عدالت تک کو ہائی جیک کرلیا گیا تھا۔ اس لئے پہلو خان کی تفتیش کو کسی طور ہندوتواوادی سیاست سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس فیصلہ کے آنے سے قبل ہی اشوک گہلوت سرکار نے نہ صرف موب لنچنگ کے خلاف قانون بنایا بلکہ اسی وقت اس بات کا بھی اعلان کردیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو پہلوخان کیس کی دوبارہ جانچ کی جائے گی اور جس کا بالآخر باضابطہ اعلان بھی کردیا گیا۔