پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے اغوا کے بعد ان کا جبراً مذہب تبدیل کرا کے شادی کرانے کے معاملے مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ یہ مسئلہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ان دنوں امریکی دورے پر ہیں۔ ایسے میں امریکہ کے 10 ارکان پارلیمنٹ نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو خط لکھا ہے۔ یہ ارکان پارلیمنٹ چاہتے ہیں کہ ٹرمپ پاک پی ایم عمران خان سے اس معاملے پر سیدھی بات کریں۔ اس درمیان سندھ صوبہ میں ایک مولوی نے ہندو لڑکیوں کی تبدیلی مذہب کی بات کا اعتراف کیا ہے اور اس پر بڑا بیان دیا ہے۔
دینک بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق، مولوی عبدالخالق میتھا نے قبول کیا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو مسلم بنانے کا مشن چلا رہا ہے۔ یہ کام وہ بہت پہلے سے کر رہا ہے۔ آگے بھی اسے جاری رکھے گا۔ رپورٹ کے مطابق، میتھا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کے 9 بچے بھی اسی مشن پر کام کریں گے کیونکہ ان کے آباواجداد نے بھی یہی کام کیا تھا۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سندھ صوبے میں ہی تبدیلی مذہب کا سب سے بڑا اڈہ ہے۔ گزشتہ سال اکیلے صوبہ سندھ میں ہی اقلیتوں (ہندوؤں) کے تبدیلی مذہب کے ایک ہزار سے زیادہ معاملے درج ہوئے ہیں۔ یہ کام دھرکی شہر کی بھرچوندی درگاہ میں ہوتا ہے جس کا مولوی یہی عبدالخالق میتھا ہے۔ اسے پی ایم عمران خان کا قریبی مانا جاتا ہے۔ یہاں کے سماجی کارکن کے مطابق، گزرے 9 سالوں میں 450 ہندو لڑکیوں کا مذہب اسی درگاہ میں تبدیل کرایا گیا ہے۔
بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق، میتھا کہتا ہے، ہاں میں نے ہندو لڑکیوں کی تبدیلی مذہب کیلئے درگاہ میں انتظام کئے ہیں۔ میں لڑکیوں کو ان کے گھر سے درگاہ تک لانے کیلئے کوئی ٹیم نہیں بھیجتا۔ وہ اپنی مرضی سے یہاں آتی ہیں۔ اس لئے میں ان کے نکاح کا انتظام کرتا ہوں۔ میرے آبا واجداد نے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرا کے اسلام کی خدمت کی ہے۔ میں بھی اسی پاک مشن پر ہوں اور میرے بچے بھی اسی راستے پر چلیں گے۔
ہندستانی بیگم کی خواہش
یہ 78 سال کا مولوی عبدالخالق میتھا 9 بچوں کا باپ ہے۔ بیوی گزر چکی ہے لیکن اب وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وہ کہتا ہے کہ ‘میرے فالوورس چاہتے ہیں کہ میں ایک نکاح اور کروں۔ اس لئے اپنے لئے دلہن بھی کھوج رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ نئی بیگم ہندستان سے ہو۔
بتا دیں کہ پاکستان میں ہندوؤں کے خلاف ظلم کے واقعات طویل وقت سے ہوتے آرہے ہیں۔ تقریبا روز ہی وہاں اقلیتوں کے خلاف اس طرح کے معاملے ہوتے ہیں۔ حالانکہ بہت کم واقعات سرخیاں بن پاتے ہیں کیونکہ زیادہ تر حکومت اور اس کا سسٹم ہی اپنی سطح پر اسے دبا دیتا ہے۔