1991 میں ایو دھیا کا مسلہ تھا تو اب مودی فیکٹر ،اس وقت بھی بھا جپا سے مقابلہ تھا اور آج بھی اسکو حکومت سے ہٹا نے کی کی جد و جہد ھے ،شاید یہی وجہ ھے کہ سماج وادی پارٹی (سپا ) کو ایک بر پھر سے بہو جن سماج پارٹی (بسپا )کا ساتھ لینے کی ضرورت پڑی ھے ۔26 سال پہلے سپا نے بسپا سے گٹھ جوڑ کر کے یو پی کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا مگر اب دیکھنا ھے کہ وزیر اعظم نریند ر مودی دونوں لوک سبھا انتخاب میں کتنی کامیابی حاصل کر پاتے ھیں ؟5نومبر 1992 میں مولا یم سنگھ یادو نے لکھنو کے بیگم حضرت محل پارک میں کانفرنس کر کے سماج وادیوں کو جوڑ کر نئی پارٹی سماج وادی پارٹی کو تشکیل دیا اور اسکے نتیجے میں وہ خود پارٹی کے قومی صدر بنے ،اس وقت یو پی میں بھاجپا کی حکومت تھی ،رام مندر کا مسآ لہ اٹھا کر حکومت میں آنے والی پارٹی بھاجپا سرکار ،سپا کی تشکیل ھونے کے ایک مہینے بعد 6دیسمبر 1992 کو ایو دھیا میں متنا ز ع ڈھانچہ کے مسما ری کے بعد بر خواست ھوگیی ،ایسے وقت میں سپا نے بھاجپا کو پھر حکومت میں آنے سے روکنے کے لیے دلت اور پچھڑ ے طبقہ میں تیزی سے اپنی بنا رہی شناخت بسپا سے نا طہ جوڑ نے کے لیے ہاتھ بڑھا یا ،دلت مسلم اور پسماندہ طبقوں کی طاقتوں اکٹھا کر کے کانشی رام اور مولا یم نے اتحاد کیا ،اس متحدہ پلیٹ فارم نے ودھا ن سبھا چنا و میں جنگ لڑی ،سپا ،بسپا گٹھ جوڑ نے بھاجپا کو حکومت سے دور کر دیا ،اور 4 دیسمبر 1993 کو ملا یم سنگھ یاد و وزیر ا علی بنے .

اس حکومت میں بسپا حصّہ دار بنی حلانکہ قریب 26 سال پہلے بنا یہ اتحاد 18 مہینے ہی چلا ،2جون 1995 کو لکھنؤ میں ایک حادثہ کی وجہ سے اتحاد ٹوٹ گیا ،اس حادثہ نے دونوں پارٹیوں میں ایک خلیج پیدا کر دی ،مگر چار بار یو پی کی حکومت پر قابض رہی بسپا آج سیاسی طور پر پردیش میں خاصی کمزور ہوئی ھے ،ادھر 2012 میں مکمل اکثریت والی سپا بھی مشکل دور میں جا پہونچی ھے ،دونوں پارٹیاں کمزور ہوئی ھیں ،اور بھاجپا طاقتور هو کر مرکز ھی میں نہیں یو پی میں مکمل اکثریت کے ساتھ یو پی میں حکومت ھے_ایسے دور میں بھاجپا کو مرکز کی حکومت سے باہر کا راستہ دکھانے کے لیے لوک سبھا چنا ؤ میں سپا اور بسپا نے آپسی رنجش کو مٹا کر 26 سال بعد ایک منچ پر آ ے ھیں ،آج بسپا کی کما ن کانشی رام نہیں بلکہ مایا وتی کے ہاتھ میں ھے ،اور ادھر سپا کی باگ ڈور اکھلیش یادو کے پاس آ چکی ھے ،سپا کے قو می صدر اکھلیش یادو وزیر ا علی رہتے ہوۓ یو پی میں اپنی سر کار نہیں بچا پاۓ جبکہ انہوں نے کانگریس سے گٹھ جوڑ کر اسے 105 سیٹیں دی تھیں با و جود اس کے سپا صوبے میں صرف 48سیٹیں ھی جیت سکی ،آج ایک بار پھر لوک سبھا چنا ؤ میں سپا کے قومی صدر اکھلیش یادو آزما یش میں ھیں ،کیوں اس انتخاب میں بسپا سے اتحاد انکا اپنا فیصلہ ھے اور امید وار ا ن کے منتخب کرنے میں بھی کسی اور دوسرے کی چوایس نہیں ھے ،اتنا ھی نہیں سپا کے قد آ ور نیتا ؤ ں میں شمار رھے چا چا شیو پال سنگھ یادو بھی نئی پارٹی تشکیل کر کے بھتیجے اکھلیش یاد و کو چیلنج دے رھے ھیں _مو جو دہ لوک سبھا میں سپا ممبران کی تعداد سات ھے ،ان میں دو سیٹیں تو سپا نے یو پی میں بھاجپا سرکار بننے کے بعد وزیر ا علی یو گی آ دیتہ ناتھ اور نایب وزیر ا علی کیشو پرسا د لمو ر یہ کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوئی دو سیٹیں گورکھپور اور پھولپور کو ضمنی الیکشن جتنے سے ملی ھیں ،باقی پانچ سیٹیں اعظم گڑھ (ملا یم )قنو ج (ڈمپل ) یوں (دھر میند ر ) مین پوری (تیج پر تا ب سنگھ تیجو ) اور فیروز آباد (اکشے پر تاپ ) نے عام انتخابات میں جیتی تھیں ،اب دیکھنا ھے کہ آنے والے لوک سبھا انتخاب میں یہ اتحاد بھاجپا کو کتنا کمزور کرکے ملک کے لیے نیا وزیر اعظم بنا نے میں مثالی کر دار ادا کر سکے گا ۔